سمت ۔۔ اردو ادب کا آن لائن جریدہ

Wednesday, November 23, 2005

شمارہ۔ ایک۔۔۔۔۔۔۔ دسمبر ۲۰۰۵

سمت کا پہلا شمارہ پیش خدمت ہے۔ ہماری کوشش ہوگی کہ اسے ہر بار زیادہ سے زیادہ سنوار سکیں، اور ظاہر ہے کہ اس کی تزئین و آرائش آپ کے تعاون پرہی منحصر ہے۔

خیال یہ ہے کہ اس کی ترتیب بالترتیب میرے دوسرے بلاگ پر قرار پاۓ گی اور پھر اسے ایک بہتر ترتیب میں یہاں پوسٹ کر دیا جاۓ گا۔

میں بہتر تو یہ سمجھوں گا کہ مجھے ٹیکسٹ یا ورڈ ڈاکیومنٹ کی شکل میں تحریر ارسال کی جاۓ، اور اگر آپ نے ان پیج میں ٹائپ کر رکھی ہےیا کروا رکھی ہے تو ایسی سائٹس بھی ہیں جہاں یہ یونی کوڈ اردو میں تبدیل کی جا سکتی ہیں، جیسے اقبال سائبر لائبریری اور قرن۔

یہاں ہم نے آراء 'ڈس ایبل' کر دۓ ہیں مگر امید ہے کہ آپ اپنی بیش قیمت آراء سے نوازیں گے۔ ای میل پتہ یہ ہے:
aijazubaid@gawabcom
aijazakhtar@gmail.com

نستعلیق فانٹ میں اس جریدے کو دیکھنا چاہیں تو نفیس نستعلیق فانٹ کرلپ کی سائٹ سے ڈاؤن لوڈ کریں۔

اعجاز عبید

مدیر

گاہے گاہے باز خواں۔۔۔۔۔

اسد اﷲخاں غالب

غزل



بزمِ شاہنشاہ میں اشعار کا دفتر کھلا

رکھیو یارب یہ درِ گنجینہٴ گوہر کھلا

شب ہوئی، پھر انجمِ رخشندہ کا منظر کھلا

اِس تکلف سے کہ گویا بتکدے کا در کھلا

گرچہ ہوں دیوانہ، پر کیوں دوست کا کھاؤں فریب

آستیں میں دشنہ پنہاں، ہاتھ میں نشتر کھلا

گو نہ سمجھوں اس کی باتیں، گونہ پاؤں اس کا بھید

پر یہ کیا کم ہے کہ مجھ سے وہ پری پیکر کھلا

ہے خیالِ حُسن میں حُسنِ عمل کا سا خیال

خلد کا اک در ہے میری گور کے اندر کھلا

منہ نہ کھلنے پر وہ عالم ہے کہ دیکھا ہی نہیں

زلف سے بڑھ کر نقاب اُس شوخ کے منہ پر کھلا

در پہ رہنے کو کہا اور کہہ کے کیسا پھر گیا

جتنے عرصے میں مِرا لپٹا ہوا بستر کھلا

کیوں اندھیری ہے شبِ غم، ہے بلاؤں کا نزول

آج اُدھر ہی کو رہے گا دیدہٴ اختر کھلا

کیا رہوں غربت میں خوش، جب ہو حوادث کا یہ حال

نامہ لاتا ہے وطن سے نامہ بر اکثر کھلا

اس کی امت میں ہوں مَیں، میرے رہیں کیوں کام بند

واسطے جس شہ کے غالب گنبدِ بے در کھلا



اردو کی آخری کتاب

پطرس بخاری

ماں کی مصیبت

ماں بچے بچوں کو گود میں لئے بیٹھی ہے۔ باپ انگوٹھا چوس رہا ہے اور دیکھ دیکھ کر خوش ہوتا ہے۔ بچہ حسب معمول آنکھیں کھولے پڑاہے۔ ماں محبت بھری نگاہوں سے اس کے منہ کو تک رہی ہے اور پیار سے حسب ذیل باتیں پوچھتی ہے

وہ دن کب آئے گا جب تو میٹھی میٹھی باتیں کرے گا؟

۔بڑا کب ہوگا؟ مفصل لکھو۔

۔ دولہا کب بنے گااور دلہن کب بیاہ کر لائے گا؟ اس میں شرمانے کی ضرورت نہیں۔

۔ ہم کب بڈھے ہوں گے؟

۔ تو کب کمائے گا؟

۔ آپ کب کھائے گا؟ اور ہمیں کب کھلائے گا؟ باقاعدہ ٹائم ٹیبل بنا کر واضح کرو۔

بچہ مسکراتاہے اور کیلنڈر کی مختلف تاریخوں کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ تو ماں کا دل باغ باغ ہوجاتا ہے۔ جب ننھا
سا ہونٹ نکال نکال کر باقی چہرے سے رونی صورت بناتا ہے۔ تو یہ بےچین ہوجاتی ہے۔ سامنے پنگورا لٹک رہا ہے۔ سلانا ہو، تو افیم کھلا کر اس میں لٹا دیتی ہے۔ رات کواپنے ساتھ سلاتی ہے ۔
(باپ کے ساتھ دوسرا بچہ سوتا ہے) جاگ اٹھتا ہے تو جھٹ چونک پڑتی ہے اور محلے والوں سے معافی مانگتی ہے۔ کچی نیند میں رونے لگتا ہے۔ تو بےچاری مامتا کی ماری آگ جلا کر دودھ کو ایک اور اُبال دیتی ہے۔ صبح جب بچے کی آنکھ کھلتی ہے تو آپ بھی اُٹھ بیٹھتی ہے، اس وقت تین بجے کا عمل ہوتا ہے۔ دن چڑھے منہ دھلاتی ہے۔ آنکھوں میں کاجل لگاتی ہے اور جی کڑا کرکے کہتی ہے کیا چاند سا مکھڑا نکل آیا واہ واہ۔

کھانا خودبخود پک رہا ہے

دیکھنا۔ بیوی آپ بیٹھی پکا رہی ہے۔ ورنہ دراصل یہ کام میاں کا ہے۔ ہر چیز کیا قرینے سے رکھی ہے۔ دھوئے دھائے برتن صندوق پر چُنے ہیں تاکہ صندوق نہ کھل سکے، ایک طرف نیچے اوپر مٹی کے برتن دھرے ہیں۔ کسی میں دال ہے اور کسی میں آٹا، کسی میں چولہے، پھکنی اور پانی کا لوٹا پاس ہے تاکہ جب چاہے آگ جلائے، جب چاہے پانی ڈال کر بجھا دے۔ آٹا گندھا رکھا ہے، چاول پک چکے ہیں۔ نیچے اتار کر رکھے ہیں۔ دال چولہے پر چڑھی ہے۔ غرض یہ کہ سب کام ہوچکا ہے۔ لیکن یہ پھر بھی پاس بیٹھی ہے۔ میاں جب آتا ہے تو کھانا لا کر سامنے رکھتی ہے۔ پیچھے کبھی نہیں رکھتی، کھا چکتا ہے۔ تو کھانا اُٹھا لیتی ہے۔ ہر روز یوں نہ کرے تو میاں کے سامنے ہزاروں رکابیوں کا ڈھیر لگ جائے۔ کھانے پکانے سے فارغ ہوتی ہے تو کبھی سینا لے بیٹھی ہے۔ کبھی چرخہ کاتنے لگتی ہے، کیوں نہ ہو، مہاتماگاندھی کی بدولت یہ ساری باتیں سیکھی ہیں۔ آپ ہاتھ پاؤں نہ ہلائے تو ڈاکٹر سے علاج کروانا پڑے۔

دھوبی آج کپڑے دھو رہا ہے

بڑی محنت کرتا ہے۔ شام کو بھٹی چڑھاتا ہے، دن بھر بیکار بیٹھا رہتا ہے۔ کبھی کبھی بیل پر لادی لادتا ہے اور گھاٹ کا رستہ لیتا ہے۔ کبھی نالے پر دھوتا ہے، کبھی دریا پر تاکہ کپڑوں والے کبھی پکڑ نہ سکیں۔ جاڑا ہو تو سردی ستاتی ہے، گرمی ہو تو دھوپ جلاتی ہے۔ صرف بہار کے موسم میں کام کرتا ہے۔ دوپہر ہونے آئی، اب تک پانی میں کھڑا ہے اس کو ضرور سرسام ہوجائے گا۔ درخت کے نیچے بیل بندھا ہے۔ جھاڑی کے پاس کتا بیٹھا ہے۔ دریا کے اس پار ایک گلہری دوڑ رہی ہے۔ دھوبی انہیں سے اپنا جی بہلاتا ہے۔

دیکھنا دھوبن روٹی لائی ہے۔ دھوبی کو بہانہ ہاتھ آیا ہے۔ کپڑے پڑے پر رکھ کر اس سے باتیں کرنے لگا۔ کتے نے بھی دیکھ کر کان کھڑے کئے۔ اب دھوبن گانا گائے گی۔ دھوبی دریا سے نکلے گا۔ دریا کا پانی پھر نیچا ہوجائے گا۔

میاں دھوبی! یہ کتا کیوں پال رکھا ہے؟ صاحب کہاوت کی وجہ سے اور پھر یہ تو ہمارا چوکیدار ہے دیکھئے! امیروں کے کپڑے میدان میں پھیلے پڑے ہیں، کیا مجال کوئی پاس تو آجائے، جو لوگ ایک دفعہ کپڑے دے جائیں پھر واپس نہیں لےجاسکتے۔ میاں دھوبی! تمہارا کام بہت اچھا ہے۔ میل کچیل سے پاک صاف کرتے ہو، ننگا پھراتے ہو۔


* * *

دو غزلیں

مدحت الاختر

مدت ہوئی ملے بھی نہیں بات بھی نہ کی

اس ے سوا کسی سے ملاقات بھی نہ کی

ہم اپنے گوشۂ غمِ دل کے رہے اسیر

چشمِ طلب سے سیرِمضافات بھی نہ کی

ساری دعائیں صرف ہوئیں ان کے واسطے

اپنے لۓ تو ہم نے مناجات بھی نہ کی

پر مارتے ہی پھیر میں بچوں کے آ گئیں

پھولوں سے تتلیوں نے ملاقات بھی نہ کی

ظالم بدن چرا کے گیا میرے پاس سے

اس صاحبِ نصاب نے خیرات بھی نہ کی


اس کو اپنا نہ سکے جس سے محبت پائی

جس کو دیکھا بھی نہ تھا اس کی رفاقت پائی

خیر اتنا تو کیا ہم نے کسی ی خاطر

شعر کچھ کہہ لۓ اور تھوڑی سی شہرت پائی

ذائقے خون میں شامل ہیں ہزاروں لیکن

جب ترا نام لیا، اور ہی لذت پائی

یہ بھی احسان رہا میرے خدا کا مجھ پر

جس سے اک بار ملا، اس سے محبت پائی

غزلیں

مصحف اقبال توصیفی

۔۱۔


ہمیں دنیا سےکچھ لینا نہیں تھا
ہمارےہاتھ میں کاسہ نہیں تھا

سُنا تھا تو حسیں ہے، بےوفا بھی
تجھےاےزندگی دیکھا نہیں تھا

یہی انعام۔ اس کےکام آئیں
نہ لیں احساں اگر لیتا نہیں تھا

نئےکچھ خواب لےکر رات آئی
ابھی بستر پہ میں لیٹا نہیں تھا

مرےبچّوں کےاپنے اپنےآنگن
مرےگھر میں کوئی رہتا نہیں تھا

۔۲۔


بدن کی اندھیری گپھا میں نہیں
زمیں پر نہیں میں، خلا میں نہیں

وہ مٹّھی نہ کھولےتو میں کیا کروں
ابھی میری خوشبو ہوا میں نہیں

اُسی رنگ کا پھول اس نےچُنا
جو اک رنگ میری وفا میں نہیں

شکستہ پروں کو سمیٹو ذرا
زمیں پر رہو بس خلا میں نہیں

یہ اطلس، یہ کم خواب رہنےبھی دو
یہ پیوند میری قبا میں نہیں

مرا کھیل ہی سارا اُلٹا ہوا
اثر شعر میں ہےدُعا میں نہیں

سنیں شعر کس سے، سنائیں کسی
وہ کیفےنہیں اب، وہ شامیں نہیں

شرارتی

احتشام اختر

خوشی اور غم

میرے دونوں بہن بھائی

بہت شرارتی ہیں

جب بھی میرے گھر آتے ہیں

نہ خط لکھتے ہیں

نہ تار دیتے ہیں

بس اچانک آ جاتے ہیں

مجھے سرپرائز دینے میں

دونوں کو مزا آتا ہے

ایک نظم

احتشام اختر

اب چاۓ ٹھنڈی نہیں ہوگی

داڑھی اب نہیں بڑھے گی

اب قمیص کے بٹن نہیں ٹوٹیں گے

تغافل کسی کا اب نہیں ستاۓ گا

اب کسی کے انتظار کا غم نہیں رلاۓ گا

تھکن اب پیروں سے نہیں الجھے گی

فاصلے اب درمیاں نہیں آئیں گے

دل میں اب کوئی خلش نہیں ہو گی

اب دیر تک نیند آئے گی

آفس جانے کے لۓ

مجھے اب بیوی جگاۓ گی

غزل

سرور عالم راز

کوئی تم سا ہو کج ادا نہ کبھو
ایک وعدہ کیا وفا نہ کبھو!

زخمِ دل، زخمِ جان ، زخم ِ جگر
لوہو ایسا کہیں بہا نہ کبھو

ایک دریائے دردِ بے پایاں
عشق کی پائی انتہا نہ کبھو“

کوچہ کوچہ ، گلی گلی دیکھا
آہ! اپنا پتا ملا نہ کبھو!

سوچتا کون انتہا کی جب
راس ہی آئی ابتدا نہ کبھو

تجھ کو دیکھا تو یوں ہوا محسوس
تجھ سا کوئی کہیں ملا نہ کبھو

ایسے خود آشنا ہوئے ہیں ہم
یاد آیا ہمیں خدا نہ کبھو!

ہو نہ ہو اُس گلی سے آئی ہے
ایسی گُل پاش تھی صبا نہ کبھو

زندگی کی ہزار راہوں میں
کیوں ملا کوئی راستا نہ کبھو؟

جیسا عاجز ہے آپ کا “سرور“
ایسا کوئی ہو بے نوا نہ کبھو!

بارہ ماسا ۔ ماہیوں کے روپ میں

اعجاز عبید


شرت

چھوٹےدن لمبی رات

شرت کی رت آئی


اور پیا نہیں ہیں ساتھ

وسنت

ہےجانےکہاں ڈھولا

آیا ہوگا وسنت

میں کیوں بدلوں چولا

گِریشم

گرمی کی چڑھتی دھوپ

پھول سبھی کمھلاۓ

پر اس کا وہی ہےروپ

ورشا

دن رات سےکیا مطلب

ہجر نصیبوں کو

برسات سےکیا مطلب

شِشِر

کاغذ نہیں، سچیّ ہے

سانس جُڑی اس سے

جو آخری پتیّ ہے

ہیمنت

یہ گھاس جو گیلی ہے

برہا کا ہےآنسو

نہیں اوس کا موتی ہے

چار ماہۓ

اعجاز عبید


پھر ماں کو فون کروں
جھوٹ کہوں ان سے
میں بالکل اچّھا ہوں


پلکوں پر ہیں موتی
جس کی وہی آنکھیں
مری آنکھوں کی ہیں جیوتی

دل پھر بھی ترستا ہے
اس کی محبت کا
بادل تو برستا ہے

رہےدھوپ کہ ہوں بادل
پیار کا اک موسم
رِم جھِم رِم جھِم ہر پل


ٹوٹی چھت کا مکان

ایم مبین

وہ گھر میں اکیلا اور بیزار بیٹھا تھا۔

کبھی کبھی تنہا رہنا کتنا اذیت ناک ہوتا ہے۔ اکیلےبیٹھےبلاوجہ گھر کی ایک ایک چیز کو گھورتےرہنا۔

سوچنےکےلیےکوئی خیال یا موضوع بھی تو نہیں ہےکہ اسی کےبارےمیں غور کیا جائے۔

عجیب و غریب خیالات و موضوع ذہن میں آتےہیں۔ جن پر غور کرکےکچھ بھی حاصل نہیں ہوسکتا ہے۔

اس نےاپنا سر جھٹک کر سر اُٹھانےوالےان لایعنی خیالوں کو ذہن سےنکالا اور چھت کو گھورنےلگا۔

سفید دودھ کی سی چھت، بےداغ چھت، جس کےچاروں کونوں پر چار دودھیا بلب لگےتھےاور درمیان میں ایک فانوس لٹک رہا تھا۔ گذشتہ دنوں اس نےوہ جھومر مدراس سےلایا تھا اس کی قیمت پورےتیس ہزار روپیہ تھی۔

ایک فانوس تیس ہزار روپیہ قیمت، سوچ کر وہ خود ہی ہنس پڑا ، گھر میں ایسی کئی چیزیں تھیں جن کی قیمت لاکھوں تک ہوتی اور اس کےعلاوہ پورا مکان؟

ایک کروڑ کا نہیں تو چالیس پچاس لاکھ کا ضرور ہوگا۔اور اس کےسامنےچالیس پچاس لاکھ روپیہ کےمکان کی چھت تھی جسےوہ اس وقت گھوررہا تھا۔

دس بیس سالوں قبل اس نےکبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ اس کےسر پر چالیس پچاس لاکھ روپیوں کی چھت ہوگی۔ آج اس کی یہ حالت ہے۔

لیکن کبھی اس کےایسےحالات تھےکہ اسےٹوٹی چھت کےمکان میں رہنا پڑتا تھا۔

کیا وہ اس کو بھول سکتا ہیَ نہیں۔۔ کبھی نہیں۔۔۔۔

انسان کو جس طرح اپنےاچھےدن ہمیشہ یاد رہتےہیں اسی طرح وہ اپنےبرےدن بھی کبھی نہیں بھولتا۔اور اس نےتو اس ٹوٹی ہوئی چھت کےنیچےپورےدوسال نکالےتھی۔تب کہیں جاکر وہ ٹوٹی چھت بن سکی تھی۔اس ٹوٹی چھت کےنیچی، اس کےخاندان نےکتنی تکلیفیں سہی تھیں۔ ان تکلیفوں اور اذیتوں کو وہ کبھی نہیں بھول سکتا۔

مکان، مکان کی چھت کس لیےہوتی ہے؟

سردی، گرمی، بارش، دھوپ، ہوا سےانسان کی حفاظت کرنےکےلیےمکان میں رہنےکی یہی تو وجہ ہوتی ہے۔

لیکن
جس مکان کی چھت ہی ٹوٹی ہوئی ہو اس میں رہنا کیا معنی؟بارش کےدنوں میں پانی گھر کو جل تھل کردیتا ہو اور اس طرح بہتا ہو جیسےسڑک پر پانی بہہ رہا ہو۔

دھوپ سات بجےسویرےسےہی گھر میں گھس کر جسم میں سوئیاں چبھونےلگتی ہو، دن ہو یا رات سردی جسم میں کپکپی پیدا کرتی ہو۔ تو اس چھت کےکیا معنی؟ایسےمیں کھلی سڑک پر آسمان کی چھت کےنیچےرہنا اچھا لگتا ہے، اس ٹوٹی چھت کےمکان میں رہنےکےمقابلے۔

چھت ٹوٹ گئی تھی، چھت کےٹوٹنےپر ان کا کوئی بس نہیں تھا۔ مکان کافی پرانا ہوگیا تھا۔ داداجی کہتےتھےمیرےدادا نےیہ مکان بنایا تھا۔

گھر کی چھت اور جن لکڑیوں پر وہ چھت ٹکی تھی سینکڑوں، گرمیاں، سردیاں، بارش دیکھ چکی تھیں۔آخر اس کی قوتِ برداشت جواب دےگئی۔ایک دن جب گھر میں کوئی نہیں تھا۔ سب کسی نہ کسی کام سےگھر کےباہر گئےتھی، چھت گرگئی۔کوئی جانی نقصان تو نہیں ہوا۔ لیکن ان کا سارا سنسار منوں مٹی کےنیچےدب گیا۔

بڑی محنت اور مشکل سےماں، باپ سب بھائی بہنوں نےمل کر اس سنسار کی ایک ایک چیز کو مٹی سےباہر نکالا تھا۔مٹی نکال کر آنگن میں ڈھیر لگایا گیا۔گلی سڑی لکڑیوں کا ایک طرف ڈھیر لگایا گیا اور گھر کی صاف صفائی کرکےمکان کو رہنےکےقابل بنایا گیا۔

اس کےبعد دوسالوں تک اس مکان کی چھت نہیں بن سکی۔چھت کی مٹی برسات میں بہتی رہی۔اور گرمی سردی سےدب کرزمین پر مسطح ہوگئی۔

ساری لکڑیاں ایندھن کےطور پر استعمال ہوگئی، اور گھر میں اس کےخاندان کےافراد کےساتھ گرمی، سردی، بارش کا بسیرا ہوگیا۔

پتاجی کی اتنی آمدنی نہیں تھی کہ چھت بنائی جاسکی۔ جو کچھ کماتےتھےاس میں مشکل سےان کا گھر چلتا تھا، اور ان کی تعلیم کےاخراجات پورےہوپاتےتھے۔

یہ جان کر ہی گھر کےہرفرد نےاس ٹوٹی چھت کےساتھ سمجھوتہ کر لیا تھا۔ اور چاردیواری میں رہ کر بھی بےگھر ہونےکی ہر اذیت کو چپ چاپ برداشت کررہےتھے۔اس کےبعد وہ ٹوٹی چھت اس وقت بن پائی جب پتاجی نےاپنی زمین کا ایک ٹکڑابیچ ڈالا۔

آج جب وہ اس بارےمیں سوچتا ہےتو اسےایسا لگتا ہےشاید بھگوان نےاس ٹوٹی ہوئی چھت کےنیچےصبر سےرہنے، کسی طرح کی کوئی شکایت و گلہ نہ کرنےکا صلہ اسےاس چھت کی شکل میں دیا۔اگر وہ شہر کےکسی بھی فرد کو بتاتےکہ وہ شہر کےکس حصےمیں اور کس عمارت میں رہتا ہےتو وہ اس کےنصیب سےحسد کرنےلگی۔

اس علاقےمیں بنی عمارتوں میں رہنےکا لوگ صرف خواب دیکھتےرہتےتھے۔لیکن وہ وہاں رہ رہا تھا۔ایک ایسی چھت کےنیچےجس کا نام سُن کر ہی ہر شخص آسانی سےاس کےرتبہ اور حیثیت کا پتہ لگا لیتا ہے۔

وہ چھت جو اسےاور اس گھر کےافراد کو،گرمی،سردی،بارش سےبچاتی ہے۔بچاتی کیا ہےیہ موسم اس مکان میں داخل ہونےسےرہا۔اس کےگھر کےاپنےموسم جن پر اس کا، اس کےگھر والوں کا اختیار ہےیہ ان کےبس میں ہیں موسموں کا گھر پر کوئی بس نہیں ہے۔

باہر شدید گرمی ہےاندر ائر کنڈیشنر چل رہا ہےاور کشمیر سا موسم چھایا ہوا ہے۔

باہر سردی ہے۔

لیکن پورا مکان اپنےاندر میٹھی میٹھی تپش لیےہوئےہے۔ ہوائیں اپنےبس میں ہیں۔

ہر چیز پر اپنا اختیار ہے۔

دروازےپرآٹومیٹک تالہ ہے۔

گھر کےافراد کےلمس کےبنا نہیں کھل سکتا۔

فرش پہ ایرانی قالین بچھا ہے۔ ڈرائینگ روم ایک منی تھیٹر کی طرح ہےجہاں ڈسکوری چینل کئی٢١ فٹ کےپردےپر دکھائی دیتا ہے۔

پوری بلڈنگ میں باحیثیت لوگ رہتےہیں بلکہ کچھ تو اس سےبڑھ کر ہیں۔ گپتاجی کا ایکسپورٹ کا بزنس ہے۔

متل جی ایک چھوٹےسےانڈسٹریل گروپ کےمالک ہیں۔

شاہ شہر کا ایک نامی گرامی فینانسر ہے۔

نگم ایک بہت بڑا سرکاری آفیسر ہے۔

ہر کوئی ایک دوسرےسےبڑھ کر ہے۔

یہ الگ بات ہےکہ وہ ایک دوسرےکو کتنا جانتےہیں یا ایک دوسرےکےلئےکتنےاجنبی ہیں ، یہ تو وہ لوگ بھی نہیں بتا سکتے۔ جب ان کےگھر موقع بےموقع کوئی پارٹی ہو تو وہ ایک دوسرےکےگھر جاکر اس بات سےواقف ہوتےہیں کہ ان کےگھر میں کیا کیا نئی چیزیں آئی ہیں ۔ جو اب تک ان کےگھروں میں نہیں آپائی ہیں اور پھر وہ چیز سب سےپہلےلانےکےلئےرسہ کشی شروع ہوجاتی اور کچھ دنوں کےبعد ہر گھر کےلئےوہ چیز عام سی شے بن جاتی ۔

سیڑھیاں چڑھتےہوئے، سیڑھیاں اترتےہوئےیا لفٹ میں کوئی مل جاتا ہےتو وہ اخلاقاً اس سےبات کرلیتے۔

ان کی خوشیاں تو اجتماعی ہوتی ہیں ۔ ایک دوسرےکی خوشیوں میں سبھی شامل ہوتےہیں ، لیکن ا ن کےغم میں ان کےاپنےہوتےہیں ۔ غموں میں دکھوں میں کوئی بھی کسی کو تسلی دینےبھی نہیں جاتا اپنےدکھ انہیں خود ہی جھیلنےہوتےہیں ۔ وہ دس دنوں تک اسپتال میں رہا تو بھی کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوسکی ۔ نہ تو اس کےگھر والوں نےکسی کو بتایا کہ شاہ کہاں ہےاور نہ اتنےدنوں تک شاہ کی کمی محسوس ہوئی ۔ اگر معلوم ہو بھی جاتا تو وہ کیا کرلیتے؟

اخلاقاً اسپتال جاکر شاہ کی خیریت پوچھ آتےاور آنےجانےمیں جو قیمتی وقت برباد ہوتا اس کےلئےبھی شاہ کو کوستے۔

اس بات کو ہر کوئی جانتا اور سمجھتا تھا کہ ہر کسی کا وقت قیمتی ہےاس لئےایک دوسرےکو اپنی ایسی باتوں کا پتہ لگنےہی نہیں دیتےتھے، نہ خبر کرتےتھےجس سےدوسروں کا قیمتی وقت برباد ہو ۔

متل پر حملہ کرکےغنڈوں نےاس کا سوٹ کیس چھین لیا جس میں تقریباً دس لاکھ روپےتھے۔ یہ خبر بھی انہیں دو دن بعد معلوم ہوئی جب انہوں نےاخبار میں اس کےمتعلق پڑھا ۔ دو دنوں تک متل نےبھی کی کو یہ بات بتانےکی ضرورت محسوس نہیں کی ۔

گپتاجی کا اکسیڈینٹ ہوگیا ، انہیں کافی چوٹیں آئیں ۔ دس دنوں تک وہ اسپتال میں رہےاور انہیں پانچ دنوں بعد گپتا کےساتھ ہونےوالےحادثےکا پتہ چلا ۔

وہ دس منزلہ اونچی عمارت تھی ۔ ہر فلور پر ایک خاندان اور کہیں کہیں دو تین خاندان آباد تھے۔ مگر برسوں بعد پتہ چلتا تھا کہ پانچویں فلور پر کوئی نئی فیملی رہنےکےلئےآئی ہے۔ پانچویں فلور کا سنہا کب فلیٹ چھوڑ گیا معلوم ہی نہیں ہوسکا ۔ ہر کسی کی زندگی ، گھر ، خاندان اور زیادہ سےزیادہ ان کےفلور تک محدود تھی ۔

ا س کےبعد اپنا بزنس دنیا بس اتنی ہی تھی ۔ بس انہی دو نقطوں تک محدود تھی ۔ باہر کی دنیا سےانہیں کچھ لینا دینا نہیں
تھا ۔

اچانک وہ حادثہ ہوگیا ۔

شاہ کےگھر ڈاکہ پڑا ۔

لٹیرےشاہ کا بہت کچھ لوٹ کر لےگئے۔ اس کی بیوی اور بیٹی کا قتل کردیا ۔ شاہ کو مار مار کر ادھ مرا کردیا۔ جس کی وجہ سےوہ کوما میں چلا گیا ۔

دو نوکروں کو بھی مار ڈالا ، واچ مین کو زخمی کردیا اور لفٹ مین کےسر پر ایسی چوٹ لگی کہ وہ پاگل ہوگیا۔

اتنا سب ہوگیا لیکن پھر بھی کسی کو کچھ پتہ نہیں چل سکا ۔

سویرےجب واچ مین کو ہوش آیا تو اس نےشور مچایا کہ رات کچھ لٹیرےآئےتھےاور انہوں نےاسےمار کر زخمی کردیا ۔

لفٹ مین لفٹ میں بےہوش ملا اور شاہ کا گھر کھلا تھا ۔ اندر گئےتو زخمی شاہ اور اس کےخاندان والوں کی لاشیں ان کا انتظار کر رہی تھیں ۔

تفتیش کےلئےپولس کو بلایا گیا تو پولس کی ایک پوری بٹالین آئی اور اس نےپوری بلڈنگ کو اپنےگھیرے میں لےلیا ۔پہلےبلڈنگ کےہر فرد کو بلا کر پوچھ تاچھ کی جانےلگی ۔

جب یہ واقعہ پیش آیا تو آپ کیا کررہےتھے؟ اس واقعےکا پتہ آپ کو کب چلا ؟ آپ کےپڑوس میں آپ کی بلڈنگ میں اتنی بڑی واردات ہوگئی اور آپ کو پتہ تک نہ چل سکا ؟ آپ کےشاہ سےکیسےتعلقات تھے؟ کیا کسی نےشاہ کےگھر کی مخبری کی ہے؟ بنا مخبری کےلٹیرےگھر میں گھس کر چوری کرنےکی جرأت کر ہی نہیں سکتے۔

گھر کےبڑےلوگوں سےپوچھ تاچھ کرکےبھی پولس کی تسلی نہیں ہوئی تو ہر گھر میں گھس کر گھر کےہر چھوٹےبڑے، بوڑھےبچے، عورت مرد سےپوچھ تاچھ کرنےلگی اور گھر کی ایک ایک چیز کو الٹ پلٹ کرکےدیکھنےلگی ۔

اس کےبعد بلڈنگ کےہر فرد میں سےایک دو کو پولس چوکی پر بلا کر اسےایک دو گھنٹےپولس چوکی میں بٹھایا جاتا اور اس سےعجیب و غریب سوالات کئےجاتے۔ کبھی کبھی بھیانک شکل و صورت والےچور بدمعاشوں کےسامنےلےجا کر کھڑا کردیا جاتا اور پوچھا جاتا ۔

کیا انہیں پہچانتےہو ، انہیں کبھی بلڈنگ کےآس پاس دیکھا ہے؟“ کبھی کبھی ان بدمعاشوں کو لےکر پولس خود گھر پہنچ جاتی اور گھر کی عورتوں ، بوڑھوں اور بچوں کو انہیں دکھا کر ان سےالٹےسیدھےسوالات کرتی ۔ جب رات وہ آفس سےواپس آتےتو خوفزدہ عورتیں اور بچےانہیں پولس کی آمد کی اطلاع دیتے۔ایک دن پولیس کا ایک دوسرا دستہ دندناتا ہوا بلڈنگ میں گھس آیا اور ہر گھر کی تلاشی لینےلگا۔

ہمیں شک ہےکہ اس واردات میں اسی عمارت میں رہنےوالےکسی فرد کا ہاتھ ہےاور چرایاگیا سامان اسی عمارت میں ہےاس لیےہم پوری عمارت کی تلاشی کا وارنٹ لےکر آئےہیں۔“

پولیس کےپاس سرچ وارنٹ تھا۔

ہر کوئی بےبس تھا۔ پولیس سرچ کےنام پر ان کا قیمتی سامان توڑپھوڑ رہی تھی اور ہر چیز کےبارےمیں طرح طرح کےسوالات کر رہی تھی۔ تلاشی کےبعد بھی پولیس مطمئن نہیں ہوئی۔

ہر منزل کےایک ایک دو دو آدمی کو بیان لینےکےنام پر پولیس اسٹیشن لےگئی اور بلاوجہ چار چار پانچ پانچ گھنٹےانہیں تھانےمیں بٹھائےرکھا۔

کیا کیا سامان چوری ہوا ہےاس بارےمیں تو پولیس بھی ابھی تک طےنہیں کرپائی تھی۔

اس بارےمیں معلومات دینےوالا شاہ کو ما میں تھا۔

اس کی بیوی ، بیٹی اور نوکر مرچکےتھی۔ دوبیٹےجو الگ رہ رہےتھےاس بارےمیں یقین سےکچھ بتا نہیں پاتےتھے۔

عمارت کےباہر پولیس کا سخت پہرہ بٹھا دیا گیا۔

چارسپاہی ہمیشہ ڈیوٹی پر رہتے۔

رات کو وہ کبھی بھی بیل بجا کر دہشت زدہ کر دیتے۔

دروازہ کھولنےپر صرف اتنا پوچھتی۔ ”سب ٹھیک ہےنا؟“

ہاں ٹھیک ہے۔“ جواب سن کر وہ آگےبڑھ جاتےمگر رات کی میٹھی نیند خراب کردیتے۔

کوئی کچھ نہیں بول پاتا تھا۔ چپ چاپ سب برداشت کرلیتے۔

پولیس اپنا فرض جو ادا کر رہی تھی۔

ہر کوئی اس نئی مصیبت سےپریشان تھا ۔

ہر کوئی عزت دار، رسوخ والا آدمی تھا۔

یہ طےکیا گیا کہ ایک وفد پولیس کمشنر سےبات کرےکہ وہ وہاں سےپولیس کا پہرہ ہٹالی، اور پولیس کو حکم دیں کہ وہ انھیں اس طرح وقت بےوقت تنگ نہ کریں، یعنی نہ انھیں پولیس اسٹیشن لائیں نہ ان کےگھر آئیں۔

سبھی اس کےلئےتیار ہوگئے۔

کیونکہ ان باتوں سےہر کوئی پریشان تھا۔

کمشنر سےملنا اتنا آسان نہیں تھا ، لیکن متل نےکسی طرح انتظام کر ہی دیا انھوں نےاپنےمسائل کمشنر کےسامنےرکھے۔

وہ چپ چاپ ہر کسی کی بات سُنتا رہا۔

جب اس کی باری آئی تو ان پر بھڑک اُٹھا۔

آپ شہر کےعزت دار، شریف اور دولت مند لوگ مجھ سےکہہ رہےہیں کہ میں پولیس کےکاموں میں دخل دوں۔ آپ معاملےکی سنگینی کو سمجھتےنہیں پورےچار قتل ہوئےہیں چار قتل۔ اور لٹیرےکیا کیا چرا لےگئےابھی تک پوری طرح معلوم نہیں ہوسکا۔ چاروں طرف سےپولیس کی بدنامی ہورہی ہے، الزامات کی بھرمار ہے۔ ہر ایرا غیرا آکر پوچھتا ہےکہ شاہ ڈکیتی کےمعاملےمیں پولیس نےکیا اقدام اٹھائےہیں۔ اور تفتیش کہاں تک پہونچی ہے۔ ہر کسی کو جواب دینا پڑتا ہے۔ اخباروں نےتو معاملےکو اتنا اُچھالاہےکہ وزیرِ اعظم بھی پوچھ رہےہیں کہ شاہ ڈکیتی کےمجرم ابھی تک گرفتار کیوں نہیں ہوئےہیں۔ اس لیےپولیس اپنےطور پر جو کچھ کررہی ہےیہ اس کا فرض اور طریقہ کار ہے۔ پولیس اپنےطور پر مجرموں تک پہنچنےکی پوری کوشش کررہی ہے، اور آپ کہہ رہےہیں کہ میں پولیس کو اپنا کام کرنےسےروکوں؟ آپ ملک کےعزّت دار، بااخلاق شہری ہیں پولیس کی مدد کرنا آپ کا فرض ہے۔ اور آپ لوگ پولیس کےکاموں میں دخل دینا چاہتےہیں۔ سوچئےکیا یہ درست ہے؟ میرا آپ کو مشورہ ہےآپ جائیےپولیس کی مدد کیجئےاور پولیس کو اپنےطور پر کام کرنےدیں اس کی تحقیقات میں ٹانگ نہ اڑائیں۔

سب اپنا سا منہ لےکر اپنےاپنےگھر آگئے۔


شام کو پھر بلڈنگ میں پولیس آئی۔

انسپکٹر کا پارہ ساتویں آسمان پر تھا۔

ہماری شکایت لےکر پولیس کمشنر صاحب کےپاس گئےتھے؟ہم نےتم لوگوں کےساتھ کیا کیا؟ جو تم نےکمشنر سےہماری شکایت کی۔ تم لوگوں کو ہم شریف لوگ سمجھ کر شرافت سےپیش آرہےتھے۔ ورنہ اگر ہم نےپولیس کا اصلی روپ دکھایا تو تم لوگ اپنی زندگی سےپناہ مانگو گی۔ میں اس معاملےمیں سب کو اندر کر سکتا ہوں۔ قانون کو ہاتھ میں لینےکی کوشش مت کرو۔ قانون کےہاتھ بہت لمبےہوتےہیں۔“

وہ انسپکٹر کی ان باتوں کا کیا جواب دےسکتےتھے۔ چپ چاپ اس کی باتیں سن گئےاور اپنی بےعزتی سہہ گئے۔

پولیس کی اپنےطور پر تفتیش شروع ہوئی ۔

وہ اس بار پوچھ تاچھ کچھ اس طرح کررہےتھےجیسےعادی مجرموں کےساتھ تفتیش کررہےہوں۔

خون کا گھونٹ پی کر وہ پولیس کی زیادتیوں کو برداشت کرتے، جہاں ان سےکوئی غلطی ہوتی پولیس والےانھیں گندی گندی ، فحش ، بھدی گالیاں دینےلگتے۔

آدھی رات کو دروازہ، کھٹکھٹا کر گھر میں گھس کر ہر چیز کا جائزہ لینا پولیس کا معمول تھا۔

گیٹ کےپاس کھڑےسپاہی ہر چیز کو شک کی نظروں سےدیکھتےاور بلاوجہ ہر چیز کی تلاشی لےکر ان کےبارےمیں اُلٹےسیدھےسوالات کرتے۔

بلڈنگ کی لڑکیوں اور عورتوں کو ہوسناک نظروں سےدیکھتے۔ انھیں دیکھ کرفقرے کستےاور انھیں متوجہ کرنےکےلیےآپس میں فحش باتیں کرنےلگتے۔

فحش کتابیں پڑھتےرہتےاور ان کی گندی تصویروں کو اس انداز میں پکڑےرہتےکہ بلڈنگ کی عورتوں کی نظریں ان پر پڑ جائیں۔

یہ سب جیسےزندگی کا معمول بن گیا تھا۔

رات کےبارہ بج رہےتھی۔ دروازےپر دستک دےکر پولیس جاچکی تھی۔

لیکن پھر بھی اس کی آنکھوں میں نیند نہیں تھی۔

اسےاندازہ تھا پوری بلڈنگ میں ہر گھر کا کوئی نہ کوئی فرد اسی کی طرح جاگ رہا ہوگا۔ بےخوابی کا شکار ہوگا۔

سب کی حالت اس کی سی تھی۔

باربار اس کی نظریں چھت کی طرف اُٹھ جاتی تھی۔

کیا اس چھت کےنیچےوہ محفوظ ہیں؟

اسی طرح کی ایک جھت کےنیچےشاہ کا خاندان کہاں محفوظ رہ سکا۔ پھر آنکھوں کےسامنےاپنی ٹوٹی چھت کا مکان گھوم جاتا تھا۔ اس چھت کےنیچےسردی میں ٹھٹھرکر، بارش میں بھیگ کر، ہوائوں کےتھپیڑےسہہ کر بھی وہ اپنےگھر والوں کےساتھ گہری میٹھی نیند سوجاتاتھا۔

لیکن اس چھت کےنیچے۔۔۔۔۔!

غزل

اعجاز عبید

وہ جسے سن سکے وہ صدا مانگ لوں
جاگنے کی ہے شب کچھ دعا مانگ لوں
اس مرض کی تو شاید دوا ہی نہیں
دے رہا ہے وہ، دل کی شفا مانگ لوں
عفو ہوتے ہوں آزار سے گر گناہ
میں بھی رسوائی کی کچھ جزا مانگ لوں
شاید اس بار اس سے ملاقات ہو
بارے اب سچےّ دل سے دعا مانگ لوں
یہ خزانہ لٹانے کو آیا ہوں میں
اس کو ڈر ہے کہ اب جانے کیا مانگ لوں
اب کوئی تیر تر کش میں باقی نہیں
اپنے رب سے صداۓ رسا مانگ لوں
جمع کرتا ہوں میں ظلم کی آیتیں
کس کے سر سے گری ہے ردا، مانگ لوں