سمت ۔۔ اردو ادب کا آن لائن جریدہ

Tuesday, January 17, 2006

غزل

شمبھو ناتھ تواری

نہیں کچھ بھی بتانا چاہتا ہے

وہ آخر کیا چھپانا چاہتا ہے

رلایا ہے زمانے بھر کو اس نے

مگر خود مسکرانا چاہتا ہے

لگا کر آگ گلشن میں بھلا وہ

مکمل آشیانہ چاہتا ہے

بہا کر بےگناہوں کا لہو وہ

مسیحا کہلوانا چاہتا ہے

ذرا سی بات ہے بس روشنی کی

وہ اپنا گھر جلانا چاہتا ہے

بس اک قطرہ ہتھیلی پر سجا کر

وہ اک ساگر بنانا چاہتا ہے

زباں سے کچھ نہ بولوں ظلم سہہ کر

یہ کیا مجھ سے زمانہ چاہتا ہے

پرندے میں ابھی بھی حوصلہ ہے

فلک کے پار جانا چاہتا ہے

سبھی کی خامشی یہ کہہ رہی ہے

زباں تک کچھ تو آنا چاہتا ہے

0تبصرہ جات:



<< واپس: