سمت ۔۔ اردو ادب کا آن لائن جریدہ

Thursday, January 19, 2006

غزل

ذکی بلگرامی

(وفات 24 اکتوبر 2005)

دۓ کو چاند کبھی کبھی چاند کو دیا لکھنا

ہمیں کبھی نہیں آیا الا بلا لکھنا

سخن غریب سہی پھر بھی میرے مسلک میں

روا نہیں ہے کسی کا لکھا ہوا لکھنا

مرے عدو سے تمھارے بڑے روابط ہیں

اسے جو خط کبھی لکھنا مری دعا لکھنا

ہماری رات کا معمول بن گیا ہے ذکی

جھلستے دن کی شہادت کا مرثیہ لکھنا

ذکی بلگرامی کے اشعار کا انتخاب۔۔۔۔ مغنی تبسم

اک عذابِ سفر در سفر اور میں

شہ پروں میں لہو بوند بھیر اور میں

زندگی بھر ہواؤں سے لڑتے رہے

اک شکستہ سی شاضِ شجر اور میں

دھوپ اوڑھے ہوۓ چل رہے ہیں ذکی

یہ مرا جادۂ بے شجر اور میں

اک بادِ بے لحاظ کے دامن کو تھام کر

خوش بو لباسِ شاخِ شجر سے نکل گئی

میں نواۓ جرس جاں سے بھی محروم ہوا

گھر کے سناٹے نے کیا شور مچا رکھا ہے

ہمیں تلاش ہے دراصل اک مدینے کی

اسسی لۓ تو ہمیں شوق ہجرتوں کا ہے

زمیں کا بارِ امانت زمیں کو لوٹا کر

سروں کا قافلہ مقتل سے سرخ رو نکلا

ایک اک سچا جذبہ دل کی بستی سے

ہجرت کرنے کیوں آمادہ رہتا ہے

ہم شجر معتوب پتوں کی کوئی منزل نہیں

چل پڑیں گے ہم ادھر آندھی جدھر لے جاۓ گی

نکل پڑا ہے تو اب سایۂ بشجر میں نہ بیٹھ

سفر کی شرط یہی ہے کہ رہگزر میں نہ بیٹھ

کراں تا کراں آسمانوں میں رکھ

مجھے زندگی بھر اڑانوں میں رکھ

سفینے میں رکھ کوئی موج بلا

عذابِ ہوا بادبانوں میں رکھ

درونِ آئینہ خانہ لرز رہا ہے وجود

خود اپنے مدِٓ مقابل ہوں ڈر تو ہوگا ہی

لمحہ لمحہ منکشف ہوتا ہوا جیسے کہ تو

محوِ حیرت آئینہ در آئینہ جیسے کہ میں

ایک مٹھی گرد کہساروں کو سر کرتی ہوئی

ایک تنکا راکبِ دوشِ ہوا جیسے کہ میں

یہ مرا لمحۂ بے کراں اور تو

یہ مری ساعتِ مختصر اور میں

آنے والے پل میں کیا سے کیا ہو جاۓ

ایک شکستہ ٹہنی پر ہیں میں اور تو

بھرے مکان کے اندر ذکی کھنڈر نکلے

چہکتے بولتے آنگن میں دشتِ ہو نکلا

سر سے خمارِشہر نوردی اتر گیا

زنجیرِ جادہ پاۓ سفر سے نکل گئی

جس بے کلی سے تھی بڑی دیرینہ رسم و راہ

وہ بھی تو آج دل کے کھنڈر سے نکل گئی

گاہ عبا دھوپ کی، گاہ قبا چھاؤں کی

خاک نشینوں کی خوش پیرہنی دیکھنا